"وفاقی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے، ہائیکورٹ کے ججز نے نشاندہی کی کہ مداخلت کا سلسلہ اب تک جاری ہے"

اسلام آباد(ر م نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت سے متعلق خط پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔وفاقی حکومت کے وکیل اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کر تے ہوئے جواب جمع کرانے کے لیے وقت مانگ لیا، ان کا کہنا تھا کہ مجھے گزشتہ آرڈر کی کاپی ابھی نہیں ملی تھی، مجھے اس کیس میں وزیر اعظم سے بھی بات کرنی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرڈر پر تین دستخط ابھی بھی نہیں ہوئے۔اس کے ساتھ ہی کمرہ عدالت میں ججز کو آرڈر کاپی دستخط کرنے کے لیے دے دی گئی۔جسٹس منصورعلی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کو وقت چاہیے ہو گا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے کل تک وقت دے دیں، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آج کون دلائل دینا چاہے گا؟اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل روسٹرم پر آگئے۔وکیل اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے بتایا کہ ہم 45 منٹ لیں گے، اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔

اس موقع پر اعتزاز احسن کی جانب سے خواجہ احمد حسین عدالت میں پیش ہوگئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم پہلے وکلا تنظیموں کو سنیں گے۔اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ بار، بلوچستان ہائی کورٹ بار اور بلوچستان بار کونسل کے وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے۔

حامد خان نے دلائل کے لیے ایک گھنٹے کا وقت مانگ لیا۔بعد ازاں سپریم کورٹ بار کے صدر اور ایڈیشنل سیکریٹری سپریم کورٹ بار شہباز کھوسہ کے درمیان روسٹم پر اختلاف ہوگئے، سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے دلائل کے لیے آدھا گھنٹہ مانگ لیا۔

شہباز کھوسہ نے بتایا کہ ہم نے ذاتی حیثیت میں الگ درخواست دائر کی ہے، ایگزیکٹو کمیٹی کی کل رات میٹنگ ہوئی ہے۔سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے کہا کہ پتا نہیں کیوں یہ اپنی تشہیر چاہتے ہیں، شہباز کھوسہ نے جواب دیا کہ میں کوئی تشہیر نہیں چاہتا۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ دستخط شدہ آرڈر کی کاپی اٹارنی جنرل کو فراہم کریں۔بعد ازاں اٹارنی جنرل نے گزشتہ عدالتی کارروائی کا تحریری حکمنامہ پڑھنا شروع کردیا۔

قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ایک معزز جج نے اضافی نوٹ لکھا وہ بھی پڑھ لیں، جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ لکھا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں معذرت چاہتا ہوں میری لکھائی اچھی نہیں ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے سابق صدر عابد زبیری سے مکالمہ کیا کہ ہم کسی پرائیویٹ شخص کو فریق نہیں بنائیں گے، وکلا بتائیں کتنا وقت درکار ہوگا دلائل کے لیے؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے، جسٹس اطہر من اللہ نے اپنا اضافی نوٹ پڑھتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کے ججز نے نشاندہی کی کہ مداخلت کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

بعد ازاں پاکستان بار کونسل کے وکیل ریاضت علی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بار کونسل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے معاملے پر جوڈیشل تحقیقات کرانا چاہتی ہے، ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنا کر قصورواروں کو سزا دی جائے۔