جے پور کی مہارانی گائیتری دیوی

انڈیا میں 1960 کی دہائی میں ہنگامہ خیز سیاست کے دنوں میں سرکردہ سوشلسٹ رہنما جے پرکاش نارائن ایک محفل میں ملک سے آزادی کے خواہاں ایک قبیلے سے کیے گئے مذاکرات کے حوالے سے حاظرین کو آگاہ کر رہے تھے۔ابھی ان کا خطاب شروع ہی ہوا تھا کہ اچانک ایک مہنگے فرانسیسی پرفیوم کی مہک اٹھی اور فیروزی رنگ کی ساڑھی میں ملبوس ایک خاتون محفل میں داخل ہوئیں۔انھوں نے اپنی بڑی، بڑی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھا اور ان کی آمد پر محفل میں موجود سبھی لوگ احترام میں کھڑے ہوگئے۔یہ تھیں جے پور کی مہارانی گائیتری دیوی، جن کا شمار دنیا کی تاریخ کے سب سے خوبصورت لوگوں میں ہوتا ہے۔

مہارانی نے دیر سے آنے پر معذرت کی، اپنے چہرے سے سامنے آنے والی لٹوں کو ہٹایا اور سب کو بیٹھنے کا کہہ کر خود قالین پر براجمان ہو گئیں۔پرکاش نارائن نے دوبارہ خطاب شروع کرتے ہوئے کہا یہ واقعی ایک انقلاب ہے۔ ایک مہارانی عام لوگوں کے پیروں تلے بیٹھی ہیں۔جواباً مہارانی کے لبوں پر مسکراہٹ آئی اور انھوں نے اپنے ہینڈ بیگ سے سونے کا ایک ڈبا نکالا اور سگریٹ سلگایا۔

یاد رہے کہ برطانوی راج سے آزادی کے بعد انڈین حکومت قانونی طور پر شاہی اعزازوں اور سلطنتوں کو ختم کر چکی تھی لیکن گائیتری دیوی ان چند لوگوں میں سے تھیں جو کسی نہ کسی وجہ سے ہمیشہ دلچسپی کا موضوع رہے۔

ان کی والدہ بڑودہ کی شہزادی اندرا تھیں اور وہ اپنی بیٹی کو رائڈر ہیگرڈ کی کتاب شی: آ ہسٹری آف ایڈونچر کی مرکزی کردار جادوگر ملکہ کے نام پر عائشہ کہہ کر بلاتی تھیں۔دنیا کی سب سے خوبصورت خواتین کی فہرستوں میں اکثر جگہ بنانے والی گائیتری دیوی کا تعلق مشرقی انڈیا کی کوچ بہار سلطنت سے تھا۔

سلطنت کے راج کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور مغربی سماج سے متاثر ہونے کے باعث انھیں اس وقت کے حساب سے کافی آزاد خیال سمجھا جاتا تھا۔ اس سلطنت کے شہزادے اور شہزادیوں نے برطانوی سکولوں میں تعلیم حاصل کی تھی اور گائیتری دیوی خود انگلینڈ اور سوئٹزرلینڈ سے پڑھی تھیں۔ان کی آزادانہ پرورش اور مغربی طرزِ زندگی اس حیز سے جھلکتی تھی کہ اگرچہ ان کی مادری زبان بنگالی تھی لیکن وہ اس سے کہیں بہتر انگریزی اور فرانسیسی زبان میں کلام کر سکتی تھیں۔حالانکہ ان کے سسرال جےپور میں ہندی بولی جاتی تھی لیکن وہ یہ زبان بھی بمشکل ہی بول پاتی تھیں۔ تاہم اس سے عوام کے دلوں میں ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔اکثر کہا جاتا تھا کہ ان کا ’فیشن سینس‘ اپنی کی والدہ، کوچ بہار کی مہارانی اندرا سے متاثر تھا لیکن گائیتری دیوی نے 1999 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں اس بات کی تردید کی۔ان کے مطابق ان کی والدہ ’ایک مختلف زمانے سے تھیں۔ وہ کہیں زیادہ نفیس تھی، میں کبھی نفیس نہیں تھی۔

جب جےپور کے مہاراجہ من سنگھ دوئم نے گائیتری دیوی کی والدہ سے رشتے کی بات کی تو انھوں نے یہ پیشکش مسترد کر دیا۔ کیونکہ وہ اس سے قبل دو بار شادی کر چکے تھے۔تاہم والدہ سے اجازت نہ ملنے کے باوجود گائیتری اور مہاراجہ کا رومانس بیرونِ ملک جاری رہا۔یہ رومانس من سنگھ کے کوچ بہار کے ایک دورے کے دوران شروع ہوا جب وہ وہاں پولو کھیلنے آئے تھے۔اس وقت گائیتری دیوی کی عمر تقریبا 14 سال تھی اور من سنگھ 21 سال کے تھے۔

گائیتری دیوی نے بعد میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ مہاراجہ سب ہی کو پسند تھے۔ ہر کوئی ان سے متاثر تھا، یہاں تک کہ لڑکے بھی انھیں پسند کرتے تھے۔وہ اپنی سوانح حیات میں لکھتی ہیں من سے متعلق ہر چیز ہماری توجہ کا باعث بنتی اور ہم دھیرے دھیرے ان کی زندگی کا ایک حصہ بننا چاہتے تھے۔گائیتری دیوی لکھتی ہیں کہ میں حیرت زدہ تھی جب انھوں نے فوراً کہا کہ وہ مجھے جشن منانے کے لیے کلکتہ کے ایک مشہور ریستوران میں لے جانا چاہتے ہیں اور اس سے زیادہ اس بات سے حیران ہوئی کہ ماں نے اس کی اجازت دے دی۔ریستوران میں انھیں تیتر پیش کیا گیا جسے وہ کاٹنا نہیں جانتی تھیں۔من نے میری مدد کی۔ رات کے کھانے کے بعد ڈرائیور مجھے گھر لے آیا لیکن میرا ذہن ابھی بھی وہیں تھا اور مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ سب کچھ سچ میں ہو رہا ہے۔

جے پور کوچ بہار کے مقابلے میں ایک قدامت پسند ریاست تھی اور کوچ بہار میں گائیتری کی پرورش آزادانہ ماحول میں ہوئی تھی۔وہ خود بتاتی ہیں کہ وہ ایک ٹوم بوائے کی طرح رہتی تھیں۔ انھوں نے 12 سال کی عمر میں اپنا پہلا شکار کیا، نو عمری سے ہی گھڑ سواری کرتیں اور لڑکوں کے ساتھ پولو کھیلتی تھیں۔وہ کہتی ہیں کہ مجھے ساڑیاں وغیرہ پہننے سے نفرت تھی۔ میں چوڑی دار کرتہ اور پاجامہ پہنتی تھی۔اس کے برعکس جے پور میں رانیاں پردے میں رہتی تھیں تو یہاں انھوں نے ایک درمیانہ راستہ نکالا۔ وہ ریاستی امور کے لیے پردے کا اہتمام کرتیں لیکن دیگر معاملات میں اپنے من پسند لباس پہنتیں، چاہے وہ اپنی ٹریڈ مارک شفون ساڑی میں ہوں، ٹینس کھیل رہی ہوں، گھڑ سواری کررہی ہوں، پولو کھیل رہی ہوں، خود سے گاڑی چلارہی ہوں یا محل کے منتخب مہمانوں کی میزبانی کر رہی ہوں۔

اگرچہ 1947 میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد شاہی ریاستوں کو انڈین یونین میں ملا دیا گیا اور شاہی القابات ختم کردیے گئے، وہ پھر بھی ایک شاہی زندگی گزار رہی تھیں۔انھوں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی میزبانی کی، کینیڈی کنبے کا دل لبھایا اور نیویارک اور لندن کی اعلی پارٹیوں میں بھی شریک رہیں۔ 1959 میں من سنگھ کے راج پرموکھ کے رسمی عہدے کے خاتمے تک گائیتری دیوی کے لیے ایک خصوصی طیارہ مقرر تھا جسے اخراجات کم کرنے کی خاطر آخر کار فروخت کرنا پڑا۔آہستہ، آہستہ اس شاہی خاندان کو یہ احساس ہونا شروع ہو گیا کہ ان کے ماضی کہ وہ سنہرے دن اب ختم ہو چکے ہیں۔پہلے ان کی شاہی ریاستوں کو یونین میں ضم کر دیا گیا، پھر ان کے شاہی لقبوں (مثلا مہاراجہ اور مہارانی) کو ختم کردیا گیا اور پھر ریاستی لقب (راج پرموکھ) بھی نہیں رہا۔

گائیتری لکھتی ہیں کہ جب ہم نے پہلی بار اس پارٹی کے بارے میں سنا تو اس نے مجھے اور من دونوں کو راغب کیا۔ آخر کار کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ اگر انڈیا میں جمہوریت کو زندہ رکھنا ہے تو کانگریس پارٹی کے خلاف ایک موثر اور معقول حزب مخالف کی ضرورت ہے۔اس کے بعد 1961 میں وہ اس پارٹی میں شامل ہوگئیں جس سے پریس، سیاست دانوں اور عوام میں کافی تجسس پیدا ہوا۔گائیتری لکھتی ہیں کہ ریاست کے وزیر اعلی نے اس سے قبل انھیں کانگریس میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی تاہم ان کے فیصلے کے بعد انھوں نے ریاستی اسمبلی میں ناراضگی کے ساتھ کہا تھا کہ جو شہزادے خود کو سیاست میں مشغول کرینگے وہ اپنے پریوی پرسوںکو کھو دیں گے۔

سیاست سے ریٹائرمنٹ سے قبل انھوں نے مزید دو بار اپنی پارلیمانی سیٹ جیتی۔سیاست سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے میں ان کے شوہر اور بھائی کی ایک کے بعد موت ہونا بڑی وجہ تھی لیکن سیاست کی رسہ کشی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔29 جولائی 2009 کو 90 برس کی عمر میں ایک مختصر عرصے بیماری کے بعد ان کی وفات ہو گئی۔ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی گائیتری دیوی کی تصاویر جے پور کے گھروں میں ملتی ہیں اور ان کے مداحوں کے لیے وہ آج بھی راج ماتا ہیں۔