ایم کیو ایم پاکستان میں ایک بار پھر شدید اندرونی اختلافات کی بازگشت ۔۔۔۔ایم کیو ایم کس کو گورنر سندھ دیکھنا چاہتی ہے؟

اسلام آباد(رم نیوز) ایم کیو ایم پاکستان میں ایک بار پھر شدید اندرونی اختلافات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق گورنر شپ کے علاوہ بھی دیگر معاملات پر پارٹی میں تحفظات اور خدشات ہیں ۔اصل معاملہ پاور شیئرنگ کا ہے کہ کس کو کونسی سیٹ ملے گی۔ اس بارے میں نجی ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے فاروق ستار کاکہنا ہےکہ گورنر شپ کے معاملے میں پارٹی کا ایک ہی موقف ہے اور ایک ہی شخص کے بارے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے بات ہوئی ہے۔ مجھے تواس میں کوئی تقسیم نظر نہیں آتی ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ اصولاسندھ سے تعلق رکھنے والی جو جماعت ہے اس کا ہی گورنر ہوتا ہے، ان کاکہنا تھا کہ گورنر ایم کیو ایم پاکستان کاہی ہونا چاہئے۔ فاروق ستار کے مطابق خالد مقبول صدیقی سربراہ ہیں انہوں نے جو حلف اٹھایا ہے وہ ساری بات پارٹی کے علم میں لاچکے تھے ۔ ان کامزید کہنا تھا کہ سربراہ کے پاس کوئی بھی فیصلہ کرنے کا صوابدیدی اختیار بھی ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کو دو اہم مسائل کا سامنا ہے جس میں ایک گورنر سندھ کی تقرری اور دوسرا ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کا وفاقی وزیر بننا شامل ہے۔ایم کیو ایم پاکستان کے اندرونی ذرائع کے مطابق گورنر سندھ کے لیے اہم حلقوں نے خوش بخت شجاعت کے نام کو فائنل کیا ہے جس پر ایم کیو ایم پاکستان کے مقتدر حلقوں کو شدید تحفظات ہیں۔ایم کیو ایم کے مقتدر حلقوں کا کہنا ہے کہ گورنر کے نام کے لیے ان سے کوئی رائے نہیں لی گئی جبکہ خوش بخت شجاعت کافی عرصے سے غیر فعال ہیں اور پارٹی کے لیے ان کی کوئی گراں قدر خدمات بھی نہیں ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان میں اندرونی اختلافات اس وقت شدید ہوئے جب ایم کیو ایم پاکستان کی ایڈ ہاک کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے وفاقی وزیر کا حلف اٹھایا۔ذرائع کے مطابق جب پی ایس پی ایم کیو ایم پاکستان میں ضم ہوئی اور فاروق ستار سمیت پرانے لوگ واپس پارٹی میں آئے تو اس وقت سب نے متفق ہو کر فیصلہ کیا تھا کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کا کوئی بھی رکن یا سربراہ کوئی بھی سرکاری عہدہ یا وزارت نہیں لے گا۔ ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کی جانب سے خود وفاقی وزیر کا حلف اٹھانے سے آپس کے اختلافات اور بھی شدت اختیار کر گئے ہیں۔تاہم اس بارے میں ابھی بہت سے معاملات طے ہونے باقی ہیں اور پارٹی کا موقف ہے کہ باقاعدہ مشاورت سےہی حتمی فیصلے ہوں گے۔