تہران(رم نیوز)ایران اور اسرائیل کے درمیان مختصر مگر شدید جنگ کے بعد جنگ بندی نافذ ہو چکی ہے، اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای جو گزشتہ دو ہفتے ایک خفیہ بنکر میں گزار چکے ہیں اب منظرِ عام پر آنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔آیت اللہ خامنہ ای کی طویل غیر حاضری نے ملک کے سیاسی ماحول میں سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہے۔ ان کی ممکنہ واپسی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ایران شدید معاشی دباؤ، سماجی بے چینی اور قیادت پر اعتماد کے بحران سے گزر رہا ہے۔جمعرات کے روز نشر ہونے والے ریکارڈ شدہ ویڈیو پیغام میں آیت اللہ خامنہ ای نے جنگ کو ایران کی "فتح" قرار دیا۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے براہِ راست مداخلت اس وقت کی جب اسے یقین ہو چلا تھا کہ اسرائیل مکمل تباہ ہو جائے گا۔ تاہم عالمی تجزیہ کار اس بیان کو زمینی حقائق کے برخلاف تصور کر رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ نے خامنہ ای کے اقتدار کو مزید کمزور کیا ہے۔ نہ صرف ایران کو سفارتی محاذ پر نقصان اٹھانا پڑا، بلکہ فوجی اور اقتصادی اعتبار سے بھی ملک شدید متاثر ہوا ہے۔ معیشت زوال کا شکار ہے، اور عالمی پابندیاں مزید سخت ہو سکتی ہیں۔
جنگ کے دوران ایرانی ذرائع نے اطلاع دی کہ قم میں موجود کچھ بااثر اور نسبتاً غیرسیاسی مذہبی علما سے بعض سابق حکومتی عہدیداروں نے قیادت کی تبدیلی کے لیے رابطہ کیا تھا۔اگرچہ جنگ کے دوران ایرانی عوام نے قومی اتحاد کا مظاہرہ کیا، لیکن یہ اتحاد حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کی بنیاد پر تھا۔ شہریوں نے دیہی علاقوں میں پناہ لی، دکانداروں نے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کیں، اور لوگ ایک دوسرے کا حال پوچھنے کے لیے دروازے کھٹکھٹاتے رہے۔
جنگ کے آغاز سے اب تک حکومت کم از کم چھ افراد کو اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں پھانسی دے چکی ہے، جب کہ 700 کے قریب افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ یہ صورتحال اس خدشے کو تقویت دیتی ہے کہ حکومت اب مزید سخت کریک ڈاؤن کی طرف جائے گی۔
رپورٹس کے مطابق ایران نے اپنے 60 فیصد افزودہ یورینیم کا ذخیرہ جنگ سے قبل ہی ایک خفیہ مقام پر منتقل کر دیا تھا، جو کہ ممکنہ طور پر نو جوہری بم بنانے کے لیے کافی ہے۔ مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ ایران جلد جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے نکل سکتا ہے۔اس دوران، نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای نے ممکنہ انتقال کی صورت میں اپنی جانشینی کے لیے تین سینئر مذہبی شخصیات کا انتخاب کر لیا ہے، جبکہ پاسدارانِ انقلاب کی فوجی قیادت میں بھی متبادل افراد کی فہرست تیار کی جا چکی ہے۔جنگ بندی کے باوجود ایران اب بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ حکومت کی بقاء، قیادت کی تبدیلی اور جوہری پروگرام کے مستقبل پر سوالات گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
خامنہ ای اگر بنکر سے باہر نکلتے ہیں تو ان کے سامنے ایک ایسا ایران ہوگا جو پہلے جیسا نہیں رہا ، ایک ایسا ملک جو نظریاتی انتہا پسندی، بین الاقوامی تنہائی اور اندرونی بے چینی کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔