اسلام آباد (رم نیوز)پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی سربراہی میں ہوا، جس میں وزارت منصوبہ بندی و ترقی (پلاننگ ڈویژن) کے آڈٹ اعتراضات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی نے وزارت کی مالی بے ضابطگیوں اور منصوبہ بندی کے فقدان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
اجلاس میں انکشاف ہوا کہ وزارت منصوبہ بندی نے اپنی اصل گرانٹ کے مقابلے میں 134 فیصد زائد ضمنی گرانٹس حاصل کیں، جس پر اراکین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔رکن کمیٹی نوید قمر نے کہا کہ وزارت کے اعدادوشمار میں تضاد ہے اور بظاہر کوئی منصوبہ بندی یا وژن نظر نہیں آ رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں کہ وزارت کا حقیقی مقصد کیا ہے۔
ریاض فتیانہ نے وزارت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "کیا پلاننگ ڈویژن کا کام صرف حکومتی ہدایات پر مہر لگانا ہے؟" انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں ہر چوتھا شخص بیروزگار ہے، اور اسکول و اسپتال نجی ٹھیکیداروں کو دیے جا رہے ہیں، مگر انسانی ترقی کے لیے کوئی واضح حکمت عملی موجود نہیں۔انہوں نے آڈٹ اعتراضات کو "ڈیزاسٹر" قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی کارکردگی کے بعد تو وزارت کو بند کر دینا چاہیے۔
چیئرمین جنید اکبر نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "اگر وزارت منصوبہ بندی میں مالی و انتظامی کنٹرول موجود نہیں تو باقی وزارتوں کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔" انہوں نے حکام کو ہدایت دی کہ آئندہ کمیٹی اجلاس میں مکمل تیاری کے ساتھ شرکت کریں اور تمام ضروری بریفنگ ساتھ لائیں۔رکن کمیٹی خواجہ شیراز نے متنازع آڈٹ پیرا کو منظور نہ کرنے کی تجویز دی، جبکہ نوید قمر کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ انکوائری کی نہیں بلکہ واضح بدانتظامی کا ہے۔
شازیہ مری نے کہا کہ آج کی کارکردگی سے واضح ہو گیا ہے کہ وزارت منصوبہ بندی کے پاس کوئی پیشگی تیاری نہیں تھی۔ انہوں نے زور دیا کہ ایسی روایات کا خاتمہ ناگزیر ہے۔جنید اکبر نے ہدایت دی کہ متعلقہ حکام ایک ماہ کے اندر انکوائری مکمل کر کے کمیٹی کو رپورٹ پیش کریں۔
اجلاس کے دوران ریاض فتیانہ نے وزیراعظم کے ایک ایونٹ پر 22 کروڑ روپے خرچ ہونے پر بھی سوال اٹھایا، اور مطالبہ کیا کہ بتایا جائے یہ کون سا ایونٹ تھا جس پر اتنی خطیر رقم خرچ کی گئی۔خواجہ شیراز نے بھی وزارت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بڑے بڑے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں مگر مکمل نہیں ہوتے، اور جب قدرتی آفات آتی ہیں تو فنڈز نکال کر کہیں اور لگا دیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک غریب ہے اور وسائل کا مؤثر استعمال ناگزیر ہے۔